یہ واقعہ میں نے والد گرامی سے سنا اور بہت سے دیگر لوگوں نے اس کی تصدیق کی ہے۔ جن دنوں پاکستان میں فیلڈ مارشل ایوب خاں کرسی صدارت پر براجمان تھے اور ایران میں رضا شاہ پہلوی بطور شاہ ایران مسند اقتدار پر متمکن تھا۔ اس دور میں حاصل پور میں (ش، م) نامی زمیندار وسیع شہری جائیداد کا مالک اور ٹرانسپورٹر تھا اور خود ہی اپنی ذاتی بس بھی چلاتا تھا۔ ایک روز سڑک کے کنارے کھڑی ایک بیوہ خاتون کے ہمراہ اس کا چھ سالہ اکلوتا یتیم بیٹا بھی تھا۔ جب بس قریب آئی تو بچے نے چھوٹا سا کنکر اٹھا کر بس کی طرف پھینکا۔ اس کنکر سے بس یا کسی سواری کا کوئی نقصان نہ ہوا۔ مگر بظاہر اس بیوہ خاتون کی گود اُجڑنے کا سبب بن گیا۔ (ش، م) نامی ٹرانسپورٹر نے غصے میں آکر دانستہ طور پر معصوم بچے کو بس کے نیچے کچل دیا بار بار گاڑی آگے پیچھے کرکے بچے کا کچومر نکال دیا۔ بیوہ خاتون منت سماجت کرتی رہی مگر ٹرانسپورٹر نے ایک نہ سنی۔ ٹرانسپورٹر کے پاس دولت کی فراوانی کانشہ بھی تھا۔ سیاسی اثرو رسوخ بھی تھا۔ عوام الناس نے ظلم ظلم کی آواز اٹھائی۔ (ش، م) اس بچے کے مقدمہ قتل میں گرفتار ہوکر پابند سلاسل ہوا۔ عدالت نے سزائے موت کی سزا سنائی۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے سزا بحال رکھی۔ اس کے تعلقات کا عالم یہ تھا کہ شاہ ایران نے بھی صدر ایوب خاں کو معافی کیلئے سفارش کی تھی مگر معافی نہ مل سکی اور ظالم کو موت کے پھندے سے جھولنا پڑا۔ کیونکہ اس کی رسائی شاہ ایران تک تھی اور مظلوم کی آہ عرش الٰہی سے ٹکراتی ہے۔بہت لوگوں نے تصدیق کی کہ گرفتاری کے دوران زمیندار اپنے عزیزوں اور ملاقاتیوں سے کہتا تھا کہ تمہاری کوشش مجھے سزا سے بچا نہیں سکتیں۔ جب بھی آنکھ لگتی ہے وہ معصوم بچہ جسے دانستہ بس کے نیچے کچلا تھا میری چھاتی پر چڑھ جاتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ یہ مجھے ہلاک کردے گا۔ اس معاملہ کو ظلم کا انجام کہا جائے؟ مکافات عمل کا نام دیا جائے؟ یا یہ یقین کیا جائے کہ جس مظلوم، بیوہ اور یتیم کی رسائی کسی دنیاوی حکمران تک نہ ہوسکے اس کی مدد اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیبﷺ خود فرماتے ہیں۔
اسی طرح ایک اور واقعہ ہے کہ قلعہ بجنوٹ چولستان کے علاقہ میں مشہور برادری کے ایک شخص نے ایک خاتون سے شادی کی‘ جو نیک سیرت تھی اس سے ایک بیٹا پیدا ہوا‘ اسی دوران اس شخص نے دوسری شادی کی‘ اس کی دوسری بیوی سے بھی بیٹا پیدا ہوا‘ اس شخص کی ملکیت ساڑھے بارہ ایکڑ زرعی اراضی‘ تقریباً دو سو بھیڑیں اور بیس سے پچیس گائے تھیں۔ اس نے تمام زندگی اپنی پہلی بیوی کی زندگی کو اجیرن کیے رکھا ایک بیٹے کی پیدائش کے بعد بھی تمام زندگی نہ اسے طلاق دی‘ نہ اس کی ضروریات کا خیال رکھا اور نہ ہی شرعی حقوق ادا کیے‘ مجبوراً اس نیک خاتون نے بیٹے سمیت اپنے میکے گھر بسر کی ہے‘ اس خاتون کی نیک نیتی اور محنت سے اس کا بیٹا (جو اپنے باپ کی تمام جائیداد سے محروم رہا) کچھ زرعی رقبہ‘ تقریباً ساٹھ ستر بھیڑ بکریوں اور پانچ سے چھ گائےکا مالک ہے اور اپنے ذاتی گھر کا مالک ہے‘ باعزت گزراوقات ہورہا ہے جبکہ اس کے باپ نے مال مویشی‘ زرعی اراضی ہونے کے باوجود ہمیشہ لوگوں سے بھیک مانگ کر صبح و شام پیٹ بھرا ہے‘ روہی میں پیاسا تڑپ کر مر گیا‘ ورثا نے پندرہ سے بیس دن بعد تلاش کیا تو معلوم ہوا کہ لاوارث نعش ملی جسے لوگوں نے چندہ اکٹھا کرکے تجہیز و تکفین کی تھی‘ بعدازاں جس بیٹے (دوسری بیوی کا بیٹا) کو اپنی جائیداد کا وارث سمجھا وہ نشہ کا عادی ہوگیا اور اب زرعی اراضی‘ تمام بھیڑیں‘ گائے‘ فروخت کرکے ہر چیز سےمحروم ہوچکا ہے‘ ذاتی مکان کی حالت بھی ناگفتہ بہ ہے اور چولستان میں کسی دوسرے شخص کی گائے مزدوری پر چراتا ہے باپ کی جائیداد اور غلط فیصلہ بیٹے کیلئے بھی محرومی کا باعث بن گیا‘ کوئی نفع حاصل نہ ہوسکا اور جسے محروم رکھے یعنی اس کا سوتیلا بھائی اور سوتیلی ماں تو صبر شکر کرکے سکھ‘ سکون اور آسودگی کے ساتھ ایام زیست بسر کررہی ہے یقینا! بیوہ اور یتیم بچے کی بددعائیں تعاقب میں ہوں گی۔ استغفراللہ۔
بُری صحبت کا انجام: نوشہرہ جدید ضلع بہاول پور میں ایک شخص (خ) اور اس کے بیٹے مال مویشی چوری بھی کرتے تھے اور ڈکیتی بھی کرتے تھے‘ واردات کے دوران بعض اوقات مال مویشی چوری بھی کرتے تھے اور ڈکیتی بھی کرتے تھے‘ واردات کے دوران بعض اوقات مال مویشی کے مالکان کو جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑتے‘ جب واہر پارٹی سراغ لے کر ان کی بستی کے قریب پہنچتے تومقامی زمیندار مداخلت کرتے اور کسی کو کچھ ادا کرکے کچھ مال مویشی مل جاتے اور کچھ لوگوں کے نصیب میں صرف سسکیاں ہی رہتیں۔ چند کلومیٹر کے فاصلہ پر ایک دوسری برادری کے کچھ اشخاص نے بھی اپنے منفی کردار سے شرفاء کی زندگی اجیرن کررکھی تھی نہ لوگوں کی جان محفوظ‘ نہ مال اور نہ ہی عزت۔ مظلوم لوگوں کی آہیں عرش الٰہی سے جا ٹکرائی ہوں گی اور عوام کو تنگ کرنے والوں کا گھیرا تنگ ہونے کا سامان یوں پیدا ہوا کہ (خ) نامی شخص کا ہمسائیوں سے تنازع ہوگیا‘ بات مقدمہ بازی تک پہنچی‘ دوسری فیملی جن کے ساتھ اس کی قدر مشترک صرف مجرمانہ عادات و اطوار تھی‘ (خ) نے اپنے مخالفین پر دھاک بٹھانے کی غرض سے (س) وغیرہ کو دعوت دی کہ مسلح حالت میں آئیں‘ کھانے کے ساتھ شراب نوشی کا اہتمام بھی کیا گیا۔ (خ) کے ڈیرہ پر سب نے مل کر خوب شراب نوشی کی‘ اس دوران (س) نامی شخص نے اپنے پسٹل سے ہوائی فائرنگ شروع کردی جو منع کرنے کے باوجود فائرنگ کرتا رہا‘ بالآخر سامنےبیٹھے ہوئے میزبان (خ) کے جسم سے یکے بعد دیگرے کئی فائر نکل گئے جو موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا۔ بعدازاں (خ) کے ورثاء نے (س) کو پکڑ کر خوب تشدد کا نشانہ بنایا‘ جسے پولیس ہسپتال لے جارہی تھی کہ وہ راستہ میں ہی جاں بحق ہوگیا۔ یوں عمر بھر مخلوق خداکیلئے پریشانی کا باعث بننے والے بالآخر اپنے عبرت ناک انجام کو پہنچے اور دونوں کے ورثاء مقدمات کی پیروی میں اپنی دولت اور وقت دونوں ضائع کررہے ہیں اور بعض جیلوں میں قید کاٹ رہے ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں